birds in flight, geese, bird, animal, flight, flying, freedom, rivers, water, reflections, sunrise, fog, mist, foggy weather, silhouette, shadow, sky, mood, nature, nature photography, golden hour, landscape, riverside, sunrise over water, geese, geese, sunrise, sunrise, sunrise, sunrise, sunrise, shadow, riverside

Breaking Free from "Log Kya Kahenge?" & Reclaiming Your Emotional Independence as a Desi Woman

ہمارے ہاں معاشی آزادی اور خودمختاری کے متعلق تو بہت بات ہوتی ہے۔ خواتین کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ معاشی طور پر مستحکم اور آزاد ہونا اُن کی طاقت ہے۔ مگر کیا آپ نے کبھی غور کیا؟ کہ اکثر معاشی طور پر مستحکم اور آزاد خواتین بھی جذباتی مسائل کا شکار ہیں؟ میرا خیال ہے کہ معاشی طور پر، ایک فیملی یونٹ میں، کسی دوسرے پر انحصار کرنا کمزوری قطعاََ نہیں ہے۔ مگر جذباتی طور پر یہی انحصار ایک کمزور شخصیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک ایسی عورت جو فیصلہ سازی کا ہنر نہیں جانتی کیونکہ وہ بااعتماد نہیں وہ کیسے کسی گھر کی بنیاد رکھ سکتی ہے؟ وہ کیسے مضبوط رشتے بنا سکتی ہے جن میں اعتبار اور اعتماد سرِ فہرست ہوں؟ جن میں قدردانی اور وفا شامل ہو؟ ایک ہمہ دم خوف میں لپٹا ہوا دِل کھُل کر محبت کرنے کے قابل ہے نہ نفرت کرنے کے۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جذباتی انحصار ہے کیا اور یہ ہماری روزمرہ زندگی میں کیسا دِکھتا ہے؟ ہم اکثر اپنی خوشی، اعتماد، اور سکون کو دوسروں کے الفاظ اور رویوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جب کوئی تعریف کرے تو خوش، جب کوئی تنقید کرے تو اداس۔ گویا ہم، ہمارا دل، ہمارا مَن، ہمارا ذہن ایک کٹھ پتلی کی طرح ہے اور اس کی ڈوریں دراصل دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ یہ سب بہت بچپن سے ہمارے اندر ڈال دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ابتدائی سالوں میں تو کسی حد تک اِس انحصار کی ضرورت بھی ہوتی ہے مگر یہی انحصار ہماری عادت بنتا چلا جاتا ہے۔ معاشرتی رویے ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہماری قدر یا “سیلف ورتھ” کا تعلق دوسروں کی آراء سے ہے اور اُن کی منظوری ہی اہم ہے۔ ذاتی عدم تحفظات، قربانی اور برداشت کے غیر فطری تقاضے اور معاشرتی دباؤ بھی جذباتی انحصار پیدا کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم “لوگ کیا کہیں گے؟” کو جتنا بھی برا جانیں، تحت الشعور میں کہیں ہم بھی اسی مائنڈ سیٹ کو اپنا لیتے ہیں اور ہمارا ہر قدم، ہر عمل ہماری اپنی ذات کے مطابق نہیں بلکہ دوسروں کے مطابق ترتیب پانے لگتا ہے۔

کبھی آپ نے خود کو آئنے میں دیکھا؟ اور یہ سوچا کہ کیا یہ آپ ہی ہیں؟ یا سامنے دِکھنے والے عکس میں موجود انسان انتہائی احتیاط کے ساتھ بنایا گیا ایک خول ہے جو آپ نے خود پر چڑھا رکھا ہے؟ ایک ایسا خول جو کہ اُس ماحول سے مطابقت رکھتا ہے جس میں آپ ہیں، تاکہ آپ کو قبول کیا جائے، آپ کی ذات کو منظوری ملے اور آپ کی قدر کی جائے۔۔۔ اور اب۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہ خول مضبوط ہو گیا ہے تو آپ کو اِس میں اپنی سانس گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

لیکن ذرا سوچیں:
“کیا واقعی دوسروں کی آراء اتنی ہی اہم ہے کہ وہ ہم پر یوں اثر انداز ہو سکیں؟”
چلیں ایک اور بات کرتی ہوں یہاں۔ آپ نے اپنے اردگرد ایک چیز نوٹ کی ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارا (مجموعی طور پر) فیصلہ سازی کا ہنر کیسا کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ کسی بھی سطح پر کسی بھی انسان کو دیکھ لیجے، آپ کو احساس ہو گا کہ فیصلہ سازی اُس کے لیے ایک بہت مشکل امر بنتا جا رہا ہے۔ آپ جانتی ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ جی ہاں! اِس کی وجہ ہے جذباتی انحصار۔ جذباتی انحصار انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ آپ کا اعتماد چھین کر آپ کی ذات کی اصل پہچان کو گم کر دیتا ہے۔ نتیجتہََ آپ people pleaser بن جاتے ہیں، آپ مشکل فیصلے لینے سے، حساس اور غیرآرامدہ موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ باتیں رفتہ رفتہ آپکی ذہنی صحت کو برباد کرنے لگتی ہیں۔ اور اب سوچیے ایک، اِن تمام خصوصیات کا حامل انسان، اپنے مقاصد کا حصول کیسے اور کیونکر کر پائے گا؟
(مکتوب کے خط “آزادی کے نام” سے اقتباس)

0 0 votes
Rating
guest
0 Comments
Newest
Oldest
Inline Feedbacks
View all comments