Muhammad Hamza Ameer
Introduction
In this world of words and names, I do not count myself in the artists of words who leave others enchanted; but as a storyteller of old tales in a new manner. Words, for me, are a medium of connection; with myself, with others and with my passions.
Listening calmly to the silence of nature and words of the wise, my motive is just sharing the light in my heart with others; nor to debate, or to speak or be heard.
I am not but a drop of sea of joy; all astounded at the miracle of life.
Works
صاحبِ دل
دورِ حاضر مست و چنگ بے سرور
بے ۃبات و بے یقین و ھنور
کیاخبر اس کو کہ ہے یہ راز کیا
دوست کیا ہے، دوست کی آواز کیا
(اقبالؒ)
کئی لوگ اپنی پوری زندگیاں کسی صاحبِ دل کی پکار کے منتظر رہتے ہیں مگر مارے عفلت کے آپ جانتے نہیں۔
ہماری زندگیوں میں نئے لوگ نئے خیالات کی طرح کسی خاص مقصد کے تحت نمودار ہوتے ہیں اور جب مقصد پورا ہو جاتا ہے تو منظر سے آہستہ آہستہ عائب ہوجاتے ہیں
لیکن کچھ زندگی میں ہمیشہ رہ جاتے ہیں چاہیے جسمانی تغلقات کی سطح پر نہ ہی سہی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی کی کامل طور پر سمت بدل دیتے ہیں ۔ ان کی مثل ایسے خیال کی سی ہے جو عقیدہ بن جاتے ہیں۔ یہ صاحبِ دل سے ہیں۔
ایسے رنگ رنگدو جو کبھی نا ہی چھوٹے
صاحبِ دل کی ایک آواز دل اور وجود کے درمیان حائل پردے چاک کر دیتی ہے۔
تو کیوں فضول میں اس صاحبِ دل کا منتظر ہے؟ تو کیوں راہ کے لیے خضر کارواں کیے ہوئے ہے؟وہ جو تجھ سے امیید وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان کے لیے تو ہی خضرِ راہ ہے۔
میں تو جب دیکھوں مورے سنگ ہے ری
آج رنگ ہے اے مارنگ ہے ری
(امیرخسروؒ)
تحریر : تعلق (حصہِ اول)
وہی زندگی ،وہی مرحلے، وہی کارواں، وہی راستے مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
مگر
وہی آبلے، وہی جلن، کوئی سوزِدل میں کمی نہیں جو تم تھے آگ لگا گئے، وہ لگی ہوئی ہے بجھی نہیں
کچھ تعلقات زمان و مکان کی قید سے ماورا ہوتے ہیں جیسے آپ کا ہمارا تعلق ، دل کا دل سے تعلق- مقصد اور غرض وہ دھاگے ہیں جو ملاقاتیں بُننے کا بہانا بنتے ہیں- وقت دینا کہاں ضروری ہے کہ ہماری گفت گو برجستہ ہوتی ہے، ہم بِن بولے بھی ایک دوسرے کو سُن لیں گے۔
مصروفیتیں تو کئی آتیں ہیں، چاہے دن گزریں، ہفتے، مہینے، یا سال، یا سال ہفتوں کی مانند اور ہفتے دنوں کی مانند جاتے نظر آئیں، کیا فرق پڑتا ہے کہ آگہی کے لئے کوئی عمر نہیں کہ ہمیں ایک دوجے پر خود سے زیادہ یقیں ہے- ہاں؛ تم چاہے کسی اَن ہونی چیز پر جتنا بھی یقین کرلو مکمل طور پر نہیں کرسکتے: شاید یہ بھی شے ودیعت ہوتی ہے- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تعلق بے غرض ہے، گر یقیں نہیں تو خود ہی دیکھ لو- جس دن تم مجھ سے بدگماں ہوئے تو پھر اسی دم فاتحہ بھی پڑھ لینا لیکن نہیں؛ ایسا نہیں۔
تم نے جانے کی بات کی؟ کھونے کی بات کی؟ تعلق تو تب ختم ہو جب کوئی جائے، لیکن کوئی آئے یا جائے ہمارا رنگ ہمیشہ دل پر ثبت رہے گا
لا معلوم
سردیوں کی شامیں اس قدر اداس کیوں ہوتیں ہیں؟ میں خود سے کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں، مگر بیک وقت میں سکون بھی دل میں لیے ہوئے ہوں۔ کبھی کبھی اس کی رہ رہ کر یاد آتی ہے؛ وہ، جسے مجھ سے محبت تھی۔
اک ایسی ہی شام تھی، کچھ یاد نہیں دسمبر یا جنوری۔ میں کالج کی سیر کررہا تھا (حسبِ معمول)۔ اس دن دوستوں سے ملاقات کا دل نہیں تھا لہٰذا سب کی نظروں سے دور اکیلے چہل قدمی کرنے لگا۔
کالج کے اس پار کئی چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں، گویا آنکھیں بھی بول چال رکھتی ہیں۔ مگر اس موسم میں وہ بھی خاموش تھیں۔
ایک کھانے کی دکان سے گزر ہوا۔ جیب میں گھر جانے کے پیسے ہی تھے یا 100 روپے زیادہ، میں پیسوں کے حساب میں اچھا نہیں۔ کھانا کھاکر صاحب سے بل مانگا تو کہنے لگے جتنے جی چاہے دے دو۔ اسی اثنا میں معلوم نہیں کیا خیال ابھرا ، اس سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ خلافِ توقع وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔ میں بھی اپنی استعداد کے مطابق کتاب تحفے کے طور پر لے گیا جو آجکل میں پڑھ رہا تھا؛ خوب گفتگو ہوئی۔
میری خوشی بھی دیدنی تھی ، میں بڑا دانا بن کر اس سے گفتگو کررہا تھا – خیر بعد میں ملاقات ہوگی۔
اگلے دن اسکا کوئی خط نہ آیا، نہ اسے اگلے دن اور نہ اسے اگلے دن۔ اور نہ آج تک کوئی پیغام آیا ہے۔ وہ کہاں ہے کچھ معلوم نہیں، بس تھوڑے بہت خد و خال میرے لا شعور میں محفوظ ہیں۔۔