کیمیا (حصہ دوم)

اس کا دل بھاری ہو گیا، اور وہ خود کو باقی دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرنے لگا۔
اسی لمحے، ایک بڑھیا نے اپنے عصا سے قادِر کے کندھے پر ہلکی سی چپت لگائی۔ وہ چونک کر مڑا تو بڑھیا نے مسکراتے ہوئے کہا، “بیٹا، کیا تمہارے پاس وقت ہے کہ میرا لکڑیوں کا گٹھڑ اٹھا کر میری جھونپڑی تک پہنچا دو؟”
قادِر نے سر ہلایا اور گٹھڑ اٹھا لیا۔ راستے میں بڑھیا نے پوچھا، “میں تمہیں کافی دیر سے دیکھ رہی تھی، تم اتنے پریشان کیوں ہو؟”
قادِر نے اپنا حال دل بیان کیا۔ بڑھیا نے سکون سے کہا، “بیٹے، زندگی کے فیصلے صرف ایک پتھر کی رہنمائی پر نہیں ہوتے۔ زندگی اس سے بہت بڑی بہت وسیع ہے۔ کبھی کبھی، ہمیں خود اپنی روشنی بننا پڑتا ہے۔”
“ مگر مجھے یہ خوف ہے کہ اگر میں نے کوئی غلط فیصلہ لے لیا تو مجھے نقصان ہو گا، وقت ایک قیمتی اثاثہ ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرا وقت غلط فیصلوں کی نذر ہو” قادر نے اپنی الجھن بڑھیا کہ سامنے کہہ ڈالی
” ارے ارے!!! اگر کوئی فیصلہ غلط ہو بھی جائے تو کیا ہوا؟ غلطیاں تو زندگی کے وہ سبق دیتی ہیں جو صحیح فیصلے کبھی نہیں دے سکتے۔ اور وہ کامیابی کیا ہوئی کہ جس میں غلط فیصلوں کا ہاتھ نہ ہو؟ اس جنگ کا جیتنا کیا ہوا جس میں تمہارے جسم پر ایک کھرونچ بھی نہ آئی ہو۔ کیا تم واقعی سمجھتے ہو کہ ایسی جنگ کے تم فاتح کہلاؤ گے جس میں تمہیں لڑنا بھی نہ پڑا ہو؟”
بڑھیا نے مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں قادر سے سوال کیا۔ قادر سوچ میں پڑ گیا۔
“بس بس یہاں رکھ دو۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔ میری باتوں کے متعلق سوچنا بیٹے۔ زندگی ایک قیمتی نعمت ہے، اسے یوں مایوسی کی نذر نہ کرنا” بڑھیا ان کلمات کو کہتے ہوئے اپنی جھونپڑی کے اندر چلی گئی۔
بڑھیا کی باتوں نے قادر کے ذہن کو ایک عجب کشمکش میں ڈال دیا۔ اس کا دل ان باتوں کی جانب جھکا جا رہا تھا اور ذہن ان باتوں سے مثبت نتائج اخذ کرنا چاہتا تھا۔ وہ یوں ہی چلتا جا رہا تھا جب اس کی نظر ایک مداری پر پڑی جو کہ اپنی حرکتوں سے لوگوں کو محظوظ کر رہا تھا۔ کچھ دیر قادر بھی وہیں کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ جب مداری اپنا تماشا ختم کر کے آرام کی غرض سے بیٹھا تو قادر اس کے پاس چلا آیا۔ قادر نے اس مداری سے گفتگو کی اور اس سے اپنی مشکل بیان کی۔
مداری نے قہقہہ لگایا اور کہا، “بیٹا، میں نے کئی بستیوں کا سفر کیا ہے۔ وہ لوگ جو ان پتھروں پر انحصار کرتے ہیں، اکثر اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو کھو دیتے ہیں۔ تم خود کو خوش قسمت جانو کہ تمہیں زندگی مل گئی”
“وہ کیسے؟” قادر نے سوال کیا۔
“وہ اس طرح کے ان کی توجہ پتھر پر اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ وہ سفر کا لطف اٹھانا بھول جاتے ہیں، جب ہر دم نگاہ، دل و دماغ پتھر کی روشنی میں کھویا رہے گا تو راستے کی خوبصورتی کو کیسے دیکھ پائے گا؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ کامیابی محض منزل پر پہنچ جانے کا نام ہے؟ نہیں، زندگی تبھی کامیاب کہلاتی ہے جب تم نے اس کے ہر ہر لمحے کو کھُل کر جیا ہو۔” یہ کہتے ہوئے مداری نے اپنا سامان سمیٹا اور اپنی راہ کی جانب چل پڑا۔
مداری کی باتوں نے قادر کی سوچ کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا۔ وہ بڑھیا اور مداری دونوں کی باتوں پر غور کرتے ہوئے بستی سے نزدیک پہاڑی کی جانب چل پڑا۔ تبھی اس کی نگاہ باغ میں بیٹھے ایک شاعر پر پڑی۔ قادر کو إحساس ہوا کہ اسے اس نکتے پر شاعر کی رائے بھی لینی چاہیے۔ سو وہ شاعر کی اجازت سے اس کے پاس بیٹھ گیا اور اسے اپنا حالِ دل کہہ سنایا۔ شاعر نے آہستگی سے کہا، “زندگی صرف وہ نہیں جو تمہاری آنکھ دیکھ سکتی ہے اور تمہارے ہاتھ چھو سکتے ہیں۔ اس سے بہت بڑا ایک جہان ہے زندگی۔۔۔جو تمہارے اندر ہے۔ وہ خواب، وہ خیالات، وہ امکانات جو ابھی تم نے دریافت نہیں کیے، وہی تمہاری اصل حقیقت ہیں۔ اس دنیا کی روشنی سے آگے ایک ایسی روشنی ہے جسے تمہاری روح دیکھ سکتی ہے۔ اسے تلاش کرو۔”
شاعر کی بات نے قادر کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ شاید زندگی میں کامیابی صرف مادیت پر نہیں، بلکہ روحانیت اور معنویت پر مبنی ہے۔ شاعر سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد قادر پہاڑی کی جانب چل دیا اور اس کی چوٹی پر بیٹھ گیا۔ وہ ان تمام باتوں کو سوچنے لگا جو بڑھیا، مداری اور شاعر نے اس سے کہیں تھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ جو لوگ واقعی زندگی کو جیتے ہیں وہ زندگی کو کس گہرائی سے جانتے ہیں اور وہ جو محض مادی کامیابی کی خواہش رکھتا تھا ایک خواب کے ٹوٹ جانے سے کیسا خالی ہو گیا تھا۔ اس نے سمجھا کہ پتھر اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ اس کو اپنے من میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اس کی کا جیت کا مکمل دارمدار اس کی اپنی ذات پر تھا۔ وہ اپنا راہنما، اپنا چراغِ راہ خود تھا۔
سورج آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا، اور بستی پر سنہری روشنی پھیل رہی تھی۔ قادِر نے محسوس کیا کہ اس کے اندر ایک نئی روشنی جاگ رہی ہے۔ وہ ایک نئے جذبے اور عزم کے ساتھ اٹھا، اور زندگی کے سفر کو ایک نئی نظر سے دیکھنے کے لیے تیار ہو گیا۔

0 0 votes
Rating
guest
0 Comments
Newest
Oldest
Inline Feedbacks
View all comments