
کیمیا (حصہ اول)
یہ کہانی ہے ان دنوں کی جب ہوا کے نرم جھونکے شبنم کے قطروں کو سرگوشیاں سناتے تھے اور درختوں کے پتے ان کہی باتوں کی تال پر رقص کرتے تھے۔ جب بستیوں کے کنارے جلتے چراغ ستاروں سے باتیں کرتے اور ندیوں کے بہاؤ میں گم شدہ خوابوں کی کھنک سنائی دیتی تھی۔ ان دنوں بوڑھے لوگ اپنی بیٹھکوں میں گزرے زمانوں کی کہانیاں یوں سناتے، جیسے ان کی زبان سے الفاظ نہیں، پرانی یادوں کی خوشبو بکھرتی ہو۔ یہ وہ وقت تھا جب ہر گزرنے والا لمحہ ایک خزانے کی مانند قیمتی اور ہر سنائی دینے والی بات پوشیدہ رازوں کی جھلک لیے ہوئے ہوتی۔
یہ کہانی ہے ایک چھوٹی سی بستی کی، جو ایک سرسبز وادی میں واقع تھی۔ یہاں کے ہنر ماند باسیوں کو قدرت نے اک عجب نعمت سے نواز رکھا تھا۔ یہ نعمت تھی ایک جگمگاتا پتھر۔ اس پتھر کی خاص بات یہ تھی کہ یہ کسی کمپاس کی صورت زندگی کے راستے پہ درست فیصلوں اور سمتوں کی جانب اشارہ کرتا تھا۔ پتھر کا مالک اگر کوئی غلطی کرتا تو پتھر سرخی مائل نارنجی روشنی میں دہکنے لگتا اور اگر مالک درست سمت کا انتخاب کرتا تو پتھر دودھیا سفید روشنی سے جگمگا اٹھتا۔ بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ بستی کے ہونہار نوجوان اس پتھر کے مستحق ہیں، انہیں زندگی میں اپنا مقصد پانا آسان ہوگا تو وہ دیگر لوگوں کی مدد بھی سہولت سے کر سکیں گے اور یوں یہ بستی خوشحال و آباد ہو گی۔ اس طرح پتھر بستی کے چند لائق فائق نوجوانوں کو امانتا” دیا جاتا اس شرط پر کہ جب وہ اپنی منزل پا لیں گے تو پتھر اپنے ہی جیسے کسی نوجوان کے حوالے کر دیں گے جو کہ اس کے استعمال سے اپنی کامیابی کو یقینی بنائے گا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
بستی میں یہ دن امیدوں اور امنگوں کی روشنیوں کے ساتھ بیدار ہوا۔ ایک میلہ سجا اور بچے بوڑھے جوان سب نے اس میں شرکت کی۔ اس بار دس نوجوانوں کو یہ پتھر دیے گئے۔ بستی باسیوں کی آنکھوں میں اپنے ذہین سپوتوں کے لیے فخر کے دیے روشن تھے، وہ ان کے چہروں کو امید سے دیکھتے اور اپنے بچوں کو خواب دکھاتے کہ ایک دن وہ بھی ان کی جگہ ہوں گے۔ انہی چہروں میں ایک خوشی سے دمکتا چہرہ قادر کا تھا۔ قادر اس بستی کا ایک پرعزم اور باصلاحیت نوجوان تھا جو بچپن ہی سے کامیاب تاجر بننے کا خواب دیکھتا تھا۔ وہ لڑکپن سے نزدیکی بستیوں میں کامیاب تاجروں کے ہاں کام کرتا رہا تاکہ تجارت کے اصول سیکھے اور یوں کم عمری سے ہی اس نے اپنی صلاحیتوں کا نکھارنا شروع کر دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ پتھر کا تحفہ اس کے سفر کو آسان بنا دے اور وہ جلد ہی بڑے بڑے اور کامیاب تجارتی قافلوں کا مالک بن جائے۔ وہ پتھر کے حصول کے بعد اپنی منزل کواور قریب محسوس کر رہا تھا۔ اور یوں اس نے اپنی تجارت کا آغاز کیا۔ پتھر اس کے ہر فیصلے میں اس کا راہنما بنتا اور اس کے خوابوں کی عمارت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہونے لگی۔
مگر ہائے انسان! جب خواب دیکھتا ہے، اور ارمانوں کو حقیقت کا روپ دینے کی جستجو کرتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ قسمت ایک خاموش طاقت ہے۔ ایسی طاقت جو خوابوں کی ان راہوں پر اپنا نقش چھوڑ جاتی ہے اور ان کی تعبیروں کو اپنے رنگ میں رنگتی ہے۔ قادر کے ساتھ بھی یہی ہوا، ایک کھوٹے لمحے میں اس کے ہاتھ سے وہ پتھر چھوٹا اور کئی ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ اس کی دودھیا سفید روشنی مدھم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی اور پتھر کوئلے جیسا سیاہ پڑ گیا۔ قادر بے حس و حرکت زمین پر بیٹھا ان سیاہ ٹکڑوں کو تکتا رہا۔ اس کا دل غم میں ڈوبتا چلا گیا اور آنکھوں کے سامنے وہ تمام خواب گردش کرنے لگے جو پتھر سے جڑے تھے۔
“اب کیا ہوگا؟” اس نے خود سے سوال کیا۔
“میں کس طرح جانوں گا کہ کون سا فیصلہ درست ہے؟ میری زندگی کی سمت کیا ہوگی؟”
قادِر کا دل مایوسی اور بے بسی سے بھر گیا۔ اس کے اندر خواب دیکھنے کی طاقت ختم ہو گئی۔ وہ بستی میں اکیلا محسوس کرنے لگا، جیسے سب لوگ اپنی منزل پر پہنچ چکے ہوں اور وہ کہیں پیچھے رہ گیا ہو۔ اس کے دن رات بے مقصد ہو چکے تھے اور اس کا وجود ایک سوگوار کیفیت میں مبتلا ہو چکا تھا۔
یونہی ایک دن، اپنی سوچوں میں گم چلتا چلتا وہ بستی کے بازار تک آن پہنچا۔ بازار میں ہر طرف ہنسی خوشی کا ماحول تھا۔ دوکاندار اپنے مال کی تعریفیں کر رہے تھے، خریدار سامان خریدنے میں مشغول تھے، بچے کھیل رہے تھے، اور عورتیں چہل قدمی کر رہی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ سوچنے لگا ، “یہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان سب کے پاس اپنے راستے ہیں، اپنی منزلیں ہیں، اور میں… میں جیسے بالکل خالی ہو گیا ہوں، میرے پاس ایک مقصد تھا جو کہ اب نہیں رہا۔ کیسا ظلم ہوا مجھ پر کہ میرے دل کو اجاڑ دیا گیا اس خواب سے جس کا بیج بہت بچپن میں بویا گیا تھا، کیسا بے بس محسوس کرتا ہوں میں کہ سمت کا تعین کیسے ہو، کون ہاتھ تھامے اور راستہ دکھائے؟