
لا معلوم
سردیوں کی شامیں اس قدر اداس کیوں ہوتیں ہیں؟ میں خود سے کبھی کبھی یہ سوال کرتا ہوں، مگر بیک وقت میں سکون بھی دل میں لیے ہوئے ہوں۔ کبھی کبھی اس کی رہ رہ کر یاد آتی ہے؛ وہ، جسے مجھ سے محبت تھی۔
اک ایسی ہی شام تھی، کچھ یاد نہیں دسمبر یا جنوری۔ میں کالج کی سیر کررہا تھا (حسبِ معمول)۔ اس دن دوستوں سے ملاقات کا دل نہیں تھا لہٰذا سب کی نظروں سے دور اکیلے چہل قدمی کرنے لگا۔
کالج کے اس پار کئی چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں، گویا آنکھیں بھی بول چال رکھتی ہیں۔ مگر اس موسم میں وہ بھی خاموش تھیں۔
ایک کھانے کی دکان سے گزر ہوا۔ جیب میں گھر جانے کے پیسے ہی تھے یا 100 روپے زیادہ، میں پیسوں کے حساب میں اچھا نہیں۔ کھانا کھاکر صاحب سے بل مانگا تو کہنے لگے جتنے جی چاہے دے دو۔ اسی اثنا میں معلوم نہیں کیا خیال ابھرا ، اس سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ خلافِ توقع وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی ۔ میں بھی اپنی استعداد کے مطابق کتاب تحفے کے طور پر لے گیا جو آجکل میں پڑھ رہا تھا؛ خوب گفتگو ہوئی۔
میری خوشی بھی دیدنی تھی ، میں بڑا دانا بن کر اس سے گفتگو کررہا تھا – خیر بعد میں ملاقات ہوگی۔
اگلے دن اسکا کوئی خط نہ آیا، نہ اسے اگلے دن اور نہ اسے اگلے دن۔ اور نہ آج تک کوئی پیغام آیا ہے۔ وہ کہاں ہے کچھ معلوم نہیں، بس تھوڑے بہت خد و خال میرے لا شعور میں محفوظ ہیں۔۔