تحریر : تعلق (حصہِ اول)

وہی زندگی ،وہی مرحلے، وہی کارواں، وہی راستے مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
مگر
وہی آبلے، وہی جلن، کوئی سوزِدل میں کمی نہیں جو تم تھے آگ لگا گئے، وہ لگی ہوئی ہے بجھی نہیں
کچھ تعلقات زمان و مکان کی قید سے ماورا ہوتے ہیں جیسے آپ کا ہمارا تعلق ، دل کا دل سے تعلق- مقصد اور غرض وہ دھاگے ہیں جو ملاقاتیں بُننے کا بہانا بنتے ہیں- وقت دینا کہاں ضروری ہے کہ ہماری گفت گو برجستہ ہوتی ہے، ہم بِن بولے بھی ایک دوسرے کو سُن لیں گے۔
مصروفیتیں تو کئی آتیں ہیں، چاہے دن گزریں، ہفتے، مہینے، یا سال، یا سال ہفتوں کی مانند اور ہفتے دنوں کی مانند جاتے نظر آئیں، کیا فرق پڑتا ہے کہ آگہی کے لئے کوئی عمر نہیں کہ ہمیں ایک دوجے پر خود سے زیادہ یقیں ہے- ہاں؛ تم چاہے کسی اَن ہونی چیز پر جتنا بھی یقین کرلو مکمل طور پر نہیں کرسکتے: شاید یہ بھی شے ودیعت ہوتی ہے- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ تعلق بے غرض ہے، گر یقیں نہیں تو خود ہی دیکھ لو- جس دن تم مجھ سے بدگماں ہوئے تو پھر اسی دم فاتحہ بھی پڑھ لینا لیکن نہیں؛ ایسا نہیں۔
تم نے جانے کی بات کی؟ کھونے کی بات کی؟ تعلق تو تب ختم ہو جب کوئی جائے، لیکن کوئی آئے یا جائے ہمارا رنگ ہمیشہ دل پر ثبت رہے گا

0 0 votes
Rating
guest
0 Comments
Newest
Oldest
Inline Feedbacks
View all comments